دروازے سے دروازے تک
تین چار سال کی بچی کے ساتھ‘ زیادتی کرنے والا‘ انسانی روپ میں درندہ‘ کئی روز‘ چلتے پھرتے سوتے جاگتے‘ اس کے دل و دماخ پر‘ دکھ اور درد کے ہتھوڑے‘ برساتا رہا۔ انسانی ماررکیٹ میں‘ شوقین ترین عورتوں کی موجودگی میں‘ اس نے چھوٹی سی‘ معصوم سی‘ تین چار سال کی بچی ہی کو‘ کیوں منتخب کیا۔ اتنی چھوٹی بچی کو‘ تو بڑوں کی محبت‘ شفقت‘ لاڈ اور پیار میسر آنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے‘ منہ سے توتلی زبان میں‘ نکلنے والے لفظ‘ تو روح و قلب میں‘ آسودگی اتارتے ہیں۔ انہیں اچھلتے کودتے‘ اور اٹھکلیاں بھرتے دیکھ کر‘ انسان بڑے سے بڑا دکھ‘ بھی بھول جاتا ہے۔ ان کی ادائیں اور ناز نخرے‘ دیکھ کر فرشتے کیا‘ ساری آسمانی مخلوق جھوم جھوم جاتی ہو گی۔ اسے بصد غور کرنے کے بعد بھی‘ معلوم نہ ہو سکا‘ کہ اس انسان سے شخص کا‘ کیسی اور کہاں کی‘ مخلوق سے تعلق ہو گا‘ جو اس ناقابل یقین سطح پر‘ اتر آئی ہے۔
وہ گریب آدمی نہیں تھا کھاتے پیتے گھرانے کا تھا۔ مال کے حوالے سے‘ شوقین مال‘ مل جانا‘ ناممکنات میں نہ تھا۔ جب کام چلانا‘ اور گزرا کرنا ہو‘ تو روزن نشاط کے چھوٹا‘ بڑا یا بےکنار ہونے سے‘ کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہر دو صورتوں میں‘ ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔ قبروں پر پھول چڑھتے آئے ہیں‘ ان کھلے غنچے‘ توڑے نہیں جاتے‘ ان کے پھول بننے کا‘ انتظار کیا جاتا ہے۔ جب غنچے قبروں پر چڑھنے لگیں‘ سمجھو گلستان کی اب خیر نہیں۔ ایسے گلستان کے پودے‘ کسی وقت بھی‘ اس سے ڈنگر کا‘ پہوجن بن سکتے ہیں۔ ڈنگر کی آنکھ‘ حسن شناس نہیں ہوتی۔ وہ پیٹ ہی سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ کسی گھاس خور کا‘ چھوٹا سا بچہ اور اس کی اٹھکیلیاں‘ کسی درندے کے لیے‘ معنویت نہیں رکھتیں۔ اسے دیکھتے ہی‘ درندے کو بھوک محسوس ہونے لگتی ہے۔ درندے کی یہ فطرت ہے‘ اور اسی لیے اسے درندہ کہا جاتا ہے۔
کافی سوچنے‘ اور غور کرنے کے بعد‘ اسے معلوم ہوا‘ کہ وہ اسی بستی کا باسی تھا۔ اس سے طور اطوار کے‘ بہت سے‘ انسان سے‘ اس کے قرب وجوار میں‘ بستے تھے۔ انسانوں کی بستی میں‘ آخر ان کا کیا کام۔ یقینا یہ راکھشش لوک سے‘ یہاں انسانی بہروپ میں‘ وارد ہوئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ مل کر‘ مذہبی امور بھی انجام دیتے تھے‘ بلکہ یہ اس ذیل میں‘ اوروں سے‘ کہیں بڑھ کر تھے۔ چرچ‘ مندر‘ گرو دوارے‘ مساجد وغیرہ میں‘ شریف صورت بنا کر‘ حاضر ہوتے تھے۔ کسی پہٹھے کام کا‘ ان کے متعلق سوچنا بھی‘ گناہ کبیرہ محسوس ہوتا ہے۔
اکبر صاحب‘ گریبوں اور بیواؤں کی مدد کرنے میں‘ بڑی شہرت رکھتے تھے۔ وہ ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسے ان کا لباس اور چہرہ‘ فرشتوں جیسا لگتا تھا۔ اس نے‘ ان کی آنکھوں کو‘ کبھی پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی۔ مزدور کی مزدوری‘ رو دھو کر عطا کرتے تھے۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں ڈنڈی مارنا‘ فرض عین سمجھتے تھے۔ سوہنی گریب خواتین کے لیے‘ بڑا ہی نرم گوشہ رکھتے تھے۔
بوڑھا ریٹائر ماسٹر عیسی‘ آج بھی اس کے لیے‘ بڑا محترم اور معزز تھا‘ لیکن وہ اس کے‘ کرتوت نہیں جانتا تھا۔ پنشن لینے‘ دور دراز کے گاؤں سے آتا تھا۔ پنشن کلرک حاجی صاحب کو‘ نقد نہ سہی‘ گاؤں کی کوئی سوغات‘ گنے وغیرہ‘ تو لا کر دے سکتا تھا۔ مگر کہاں اتنی توفیق۔ حاجی صاحب‘ اس کی پنشن بک‘ سب سے نیچے رکھ دیتے تھے۔ وہ دور کھڑا‘ بک بک کرتا رہتا تھا۔ اس کی بک بک سے‘ حاجی صاحب تنگ آ گیے تھے۔ ایک دن‘ جب آخر میں باری آئی‘ تو حاجی صاحب نے کہا‘ یہ لو پنشن بک‘ کل آنا‘ دفتر ٹائم ختم ہو گیا ہے‘ یہ کہہ کر‘ کھڑکی بند کر دی۔ ماسٹر نے‘ مندا بولنے کی حد ہی کر دی۔
اگلے دن بھی‘ حاجی صاحب نے اسے‘ سارا دن کھڑا کیے رکھا۔ دفتر ٹائم ختم ہونے کے وقت کہا‘ یہ لو پنشن بک‘ اور حیاتی پروانہ‘ کسی بڑے افسر سے‘ تصدیق کروا کر لاؤ۔ ماسٹر پھر بولنے لگا۔ حاجی کا موقف درست تھا پنشن بک کی تصویر‘ ان کی موجودہ شکل سے‘ کسی طرح‘ میل نہ کھاتی تھی۔ اس راکھشش آلواد بستی میں‘ اس کے سوا‘ کوئی ماسٹر کو‘ درست قرار نہیں دے رہا تھا۔ سب حاجی صاحب کے موقف کو‘ درست قرار دے رہے تھے۔ وہ زندہ ہے‘ کا تصدق نامہ لانا اشد ضروری تھا۔
سوچوں کے اس بےسرے طوفان نے‘ اس کے اعصاب کو‘ بری طرح متاثر کیا۔ ساری دنیا‘ دوسروں کے دکھ درد سے لاتعلق ہو کر‘ پیٹ پوجا کا سامان‘ اکٹھا کرنے میں مصروف تھی۔ وہ تھا‘ کہ اوروں کے لیے‘ سوچ سوچ کر‘ بلاوجہ ہلکان ہو رہا تھا۔ ان کے لیے‘ جو اسے خبطی کہتے تھے۔ اور تو اور‘ اس کے گھر والے بھی‘ اسے کریک خیال کرتے تھے۔ وہ اکلوتا کمائی کا ذریعہ تھا‘ اسی لیے‘ اسے باامر مجبوری‘ برداشت کر رہے تھے‘ ورنہ کب کا‘ گھر سے نکال باہر کرتے۔ اب وہ نڈھال سا ہو گیا تھا۔ اس سے چلنا دشوار ہو گیا تھا۔ پھر وہ‘ ایک سڑکی ہوٹل میں‘ داخل ہو گیا۔ اس ہوٹل میں‘ تیسرے اور چوتھے درجہ سے متعلق لوگ‘ چائے وغیرہ پیتے تھے۔
ہوٹل میں بڑی گہما گہمی تھی۔ لوگ مختلف موضوعت پر گفت گو کر رہے تھے۔ ان کی گفت گو کے حوالہ سے‘ سماجی‘ معاشرتی اور شخصی نفسیاتی معاملات کا‘ باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اصل رونا‘ معاش کا رویا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ہر کوئی‘ صدیوں کی بھوک‘ اٹھائے پھرتا ہے۔ وہ آسودگی کے لیے‘ یہاں آیا تھا‘ لیکن یہاں آ کر‘ مزید بور ہوا۔ ہاں البتہ‘ دو تین بنچوں پر ہونے والی گفت گو‘ باطور خاص‘ اس کی توجہ کا سبب بنی۔
ایک صاحب بتا رہے تھے‘ کہ فلاں علامہ صاحب‘ خطاب کے لیے بلائے گیے۔ ان سے خطاب وغیرہ سے تھوڑا پہلے‘ دریافت کیا گیا‘ کہ حضرت کھانے میں‘ کدو شریف پکا لیا جائے۔ انہوں نے جوابا فرمایا‘ گنارگار آدمی ہوں‘ میں کدو شریف کے کب لائق ہوں۔ بس‘ کوئی آوارہ سا‘ مرغا پکڑ لیں۔ خطاب کے بعد‘ بڑا مختصر کھایا۔ ہانڈی کی‘ بڑی عزت افزائی ہوئی۔ گھر والوں کو‘ خدشہ پیدا ہو گیا‘ کہ کہیں ہانڈی ہی نہ کھا جائیں۔ سحری پیٹ بھر کی۔ صبح اٹھ کر‘ ناشتہ پانی طلب کر لیا۔ میزبان نے‘ حیرانی سے پوچھا‘ حضرت آپ کا تو روزہ ہے۔ بولے بھائی میں سفر میں ہوں۔
کچھ لوگ کلرک شاہی کی داداگیری پر گفت گو کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا طوائف اورکلرک میں کیا فرق ہے۔ دوسرا دونوں سجے سجائے ہوتے ہیں۔ ہاں طوائف سائل کی جیب ہلکی کرنے کے لیے اداؤں نخروں اور مسکراہٹوں سے کام لیتی ہے۔ کلرک بادشاہ گھرکیوں کو استعمال میں لاتا ہے۔ سائل اس کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ پیسے دیتا ہے کھانا کھلاتا ہے اس کے باوجود خجل خواری اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ دفتر میں بیٹھنے تک کی زحمت نہیں دی جاتی۔
ایک پیر صاحب کی بھی بات ہو رہی تھی۔ ان کے ایک مرید‘ انہیں بڑا کرنی والا بتا رہے تھے۔ ان میں ایک صاحب وہابی سے تھے‘ وہ متواتر بحثے چلے جا رہے تھے۔ ایک مقروض کا‘ دعا کے لیے آنے کا قصہ چلا۔ اس نے‘ پیر صاحب کی خدمت میں‘ نقدی نذر نیاز پیش کی‘ اور قرض اترنے کی دعا کے لیے‘ گزارش کی۔ پیر صاحب نے دعا فرمائی۔ اس وہابی کا نقطہءنظر یہ تھا‘ کہ یہ پیری مریدی سب فراڈ ہے۔ وہ کرنی والے تب تھے‘ اس مرید نے جو نذر نیاز پیش کی‘ پلے سے ناسہی‘ وہ ہی میدان میں رکھ دیتے‘ اور حاضرین کو‘ مدد کی ترغیب دیتے۔ قرض تو اسی وقت اتر سکتا تھا ہو سکتا ہے‘ کوئی ایک مرید ہی‘ اس مقروض کا قرض اتار دیتا۔ ان میں سے‘ کوئی بھی‘ اپنے موقف سے‘ دست بردار ہونے کا‘ نام ہی نہ لے رہا تھا۔ آخر‘ بات تپھڑوں اور گھونسوں تک پنچ گئی۔ کچھ لوگ‘ انہیں چھڑانے میں مصروف ہو گیے‘ کچھ نے‘ کھسکنے میں عافیت جانی۔ دو ایک‘ لڑائی کا اسکور جاننے کے لیے‘ رک گیے۔
اس نے سوچا‘ مارنے والا سمجھتا ہے‘ کہ وہ بالا دست رہا‘ حالاں کہ یہ سوچ‘ خود فریبی اور خوش فہمی سے‘ زیادہ اہمیت نہیں رکھی۔ اس لایعنی بحث اور لڑائی کے باعث‘ سکون کے سر پر‘ پتھر لگا۔ مارنے والے کی‘ توانائی زیادہ خرچ ہوئی۔ دونوں فریقوں کے مابین‘ دوامی رنجشن نے راہ پائی۔ دونوں فریق اعصابی تناؤ کا شکار ہوئے۔ جتنی بار مارا‘ اتنی بار چوٹ‘ مارنے والےکو بھی لگی۔ بات بھی کوئی ایسی بڑی نہ تھی۔ انہیں ایک دوسرے کو‘ دلائل سے‘ قائل کرنا چاہیے تھا۔ کیا سارا اسلام‘ اسی مسلے میں آ گھسا تھا۔
وہ آرام اور سکون کی غرض سے‘ ہوٹل میں جا بیٹھا تھا۔ وہاں ہونے والی باتوں اور لڑائی سے‘ مزید آوازار ہو گیا۔ وہ بوجھل قدموں سے‘ گھر کی طرف چل دیا۔ لڑائی دیکھ کر‘ اسے یقین ہو گیا‘ کہ انسانی بستی میں‘ انسانی روپ میں‘ راکھشش بھی آ بسے ہیں‘ یا یہ بستی‘ راکھششوں کے سایہ کی زد میں‘ ضرور آ گئی ہے۔ سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ سفر‘ اسے صدیاں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا‘ یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘ صدیاں لایعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے غیر تو یاد رہے‘ یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا لینے نکلا تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔